/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطان محمد فاتح جنہوں نے قسطنطنیہ شہر کو فتح کر کے حضورؐ کی بشارت کو پورا کیا تھا۔

سلطنتِ عثمانیہ کی سب سے بڑی فتح "قسطنطنیہ"کی فتح تھی،اس فتح کا سہرا  عثمانی سلطان محمد فاتح کے سر جاتا ہے۔جنہوں نے  سینکڑوں سالوں سے قائم عیسائیوں کی اس سلطنت کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا نیا پایہ تخت بنایا تھا۔قسطنطنیہ کی دیواریں گرنے کے بعدعثمانی فوج کے دستے شہر  میں داخل ہوئے۔پہلے تو انہوں نے فتح کے جوش میں قتل وغارت شروع کر دیا۔لیکن جب فوج کا جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور یہ بھی کہ جب اسلامی فوج نے دیکھا کہ اہل شہر نے کوئی مزاحمت نہی  کی تو انہوں نے اپنی تلواریں واپس نیام میں ڈال لیں،اور مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔

ظہر کی نماز کے قریب عثمانی سلطان اپنےذاتی دستےامرائے سلطنت کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے،پھر وہ سینٹ صوفیا کے گرجے کے پاس پہنچ کر گھوڑے سے اترے اوراس قدیم عالی شان معبد میں داخل ہوئے۔جس میں 11 سو برسوں سے تین خداؤں کی عبادت ہو رہی تھی،وہاں سلطان محمد فاتح نے خدائے واحد کی تسبیح کی اور سجدہ ریز ہوئے۔اس کے بعد انہوں نے مؤذن کو آذان کے لیے بلایا۔دوسرے دن سلطان محمد فاتح نے شہر کا دورہ کیا اور وہ قیصر کے شاہی محل  میں پہنچے،جب سلطان کی نظر اس کے ویران اور اُجڑے ہوئے ایوانوں پر پڑی تو سلطان کی زبان سے بے اختیار فردوسی کا یہ شعر آگیا۔"

 

"سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ شہر کے داخلی دروازے سے شہر میں داخل ہوتے ہوئے"     

"پردہ داری می کند در قصرِ قیصر عنکبوت  بوم  نوبت می زند بر گنبدِ افراسیاب"

(قیصرِ روم کے محل میں مکڑی نے جالا تان لیا ہے اور گنبدِ افراسیاب میں اُلو بول رہے ہیں)

قسطنطنیہ کی فتح کے بعد عثمانی ترکوں نے عیسائیوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔کیونکہ قرون ِوسطیٰ کے دستورِ جنگ میں مفتوحین کی جان و مال تمام تر فاتح کی مِلک ہوتی تھی۔اہل یورپ نے ٹھیک اسی طرح جب عرب علاقوں پر حملے کیے اور خاص کر جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھینا تو  انہوں نے قتل و غارت گری کی وہ مثالیں پیش کیں جنہیں آج انسان تصور  میں بھی نہیں لا سکتا۔لیکن اس کے بر عکس ترکوں نے اہل قسطنطنیہ کے عیسائیوں کے ساتھ جو کیاوہ حقیقتاً کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔یہ سچ ہے کہ شروع شروع میں ترکوں کے سامنے جو بھی آیا انہوں نے قتل کر دیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اہل شہر مزاحمت نہیں کر رہے،تو انہوں نے قتل  سے ہاتھ روک لیے اور تلواروں کو نیام میں ڈال دیا۔مسلمان تین دن تک مالِ غنیمت جمع کرتے رہے۔چھوتے دن سلطان نے عام امن کا اعلان کیا تو اس سے سپاہیوں کے ہاتھ رک گئے۔اس موقع پر مشہور عیسائی مؤرخ ایورسلے لکھتا ہے کہ:

"اگرچہ سلطان محمد فاتح اور اس کی فوج نے بہت مظالم ڈھائے اور  یونانیوں کی پوری جماعت پر سخت مصیبت ٹوٹ پڑی،تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فتح قسطنطنیہ کے موقع پر ویسی بربریت کا مظاہرہ ہوaہو جیسے 1204ء میں دیکھا گیا تھا۔جب عیسائیوں نے قبضہ کیا تھا۔سلطان نے گرجاؤں اور عمارتوں   کو محفوظ رکھا۔"

یکم جون 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے عام امن کا اعلان کیا،اور ان تمام عیسائیوں کو جو کہ قسطنطنیہ سے بھاگ گئے تھے انہیں واپس آنے کی دعوت دی،اور ان کی جان اور مال کی حفاظت کا ذمہ لیا۔اس کے بعد سلطان فاتح نے یونانی کلیسا کے پادری کو اس کے عہدے پر دوبارہ مامور کر دیااور کلیسا کی سر پرستی خود قبول کی۔ایک خاص فرمان کے ذریعے یونانی کلیسا کے پادری کی ذات کو محترم قرار دیا گیا۔اس کے علاوہ سلطان فاتح نے ان پر بازنطینی سلطنت نے جو ٹیکس عائد کیے تھے وہ ختم کر دیے۔پھر نصف کلیسے انہیں واپس کر دیے گئے اور انہیں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی۔اس فرمان میں سلطان فاتح نے انہیں یہ بھی اجازت دی کہ وہ اپنے قومی معاملات اپنی عدالتوں میں طے کر سکتے ہیں۔ان عیسائی عدالتوں کا صدر سلطان نے  پادری"جارج گنا دیس"کو مقرر کیا جسے خود یونانیوں نے منتخب کیا تھا۔ایک انگریز مؤرخ"آرنلڈ"اپنی مشہور کتاب میں سلطان فاتح کی تعریف  کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ۔"

"سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح  کے بعد   شہر میں امن و امان قائم کیا اور سلطان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے یونانی کلیسا کا سر پرست بننا قبول کیا۔ تاکہ عیسائی رعایا اس کی اطاعت قبول کریں، اور سلطان نے عیسائیوں پر سختی سے ممانعت کر دی۔اس کے بعد سلطان نے ایک فرمان جاری کیا۔جس کے ذریعے عیسائی حکام کو وہ تمام اختیارات دیے گئے جو ان کو سابق حکومت نے دے رکھے تھے۔جارج گنا دیس جو کہ  قسطنطنیہ کا پہلا پادری بنا  ،سلطان فاتح نے  اسے اپنے ہاتھ سے وہ عصا عطا کیا جو کہ اس کے منصب کا نشان تھا۔اس کے ساتھ ساتھ سلطان نے اسے ایک ہزار اشرفیاں،ایک گھوڑا جس پر بے شمار قیمتی سامان  تھا اس کو دیا اور حکم دیا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ شہر کا دورہ کریں۔عثمانیوں نے عیسائیوں کو صرف عزت ہی نہیں دی بلکہ انہیں عدالت کے وسیع اختیارات بھی عطا کیے۔جس میں سزا و جزا،قید،پھانسی جیسے مقدمات کا فیصلہ ان عیسائیوں ہی کے ہاتھ میں تھا۔تمام عثمانی انتظامیہ کو حکم تھا کہ وہ عیسائیوں کی ان عدالتوں کے فیصلے کا احترام کریں۔سابقہ بازنطینی سلطنت نے عوام کے مذہبی امور میں طرح طرح کی دست اندازیاں  کر رکھی تھیں ۔لیکن ترکوں نے عیسائیوں کے ان معاملات میں کوئی دخل نہ دیا"

ایک انگریزمؤرخ لارڈ ایورسلے لکھتا ہےکہ:۔

 "سلطان محمد فاتح کی یہ عظیم الشان رحم دلی اس دور کی یورپین عیسائی حکومتوں کی سیاسی اخلاقیات سے بہت آگے تھی۔"

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں

Mubashir

Good to know

Hanzala ahmad

Mughal empire ke baray me batye

Hanzala ahmad

Mughal empire