سلطنتِ عثمانیہ کے دوسرے حکمران اورخان غازی کی مکمل تاریخ۔
لاله شاهین، آپ از نیق پر حملہ کریں۔ اگر آپ دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو مال غنیمت آپ کا ہو گا۔ " صاف رنگت، دلکش نقوش اور مضبوط جسم کے مالک شخص نے اپنے آزاد کردہ غلام کومخاطب کیا۔لالہ شاہین اپنی مہم پر روانہ ہو گئے۔کچھ دنوں بعد وہ سرخرو ہو کر لوٹے۔ اس مہم کے نتیجے میں بہت سامالِ غنیمت ان کے ہاتھ آیا تھا۔
دلکش نقوش والی شخصیت نے اپنے نائب امیر امور مذہبی مولی خلیل کو بلایا جو برسہ کے قاضی القضاه (چیف جسٹس) بھی تھے اور ان سے پوچھا: ”اصول تو یہ ہے کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ حکومت کے لیے رکھ لیا جائے لیکن میں لالہ شاہین کو مالِ غنیمت دینے کا وعدہ کر چکا ہوں۔ آپ بتائیں کہ کیا کیا جائے؟“
اگر لالہ شاہین آپ کے غلام ہوتے تو اس صورت میں آپ کو ان کے مال پر حق تھا، لیکن اب وہ آزاد ہیں اس لیے آپ کا ان کے مال پر کوئی حق نہیں، جبکہ آپ اپنا مال غنیمت دینے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ “ مولی خلیل نے جواب دیا۔
نائب امیر امور مذہبی کا دو ٹوک جواب سن کر دلکش نقوش کی مالک شخصیت نے اپنا ارادہ بدل دیا اور لالہ شاہین کے مال غنیمت سے ایک ذرہ بھی نہ لیا۔
یہ تھے دوسرے عثمانی فرمانروا " اور خان“ جن کا شاندار عہد حکومت ترکوں کی تاریخ کا دمکتا باب ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی پہلی حکومت اور خان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئی اور دنیا کی پہلی با قاعدہ فوج تشکیل دینے کا شرف بھی اور خان کو ہی حاصل ہے۔
اور خان کا نام تاریخ میں ”ارخان" یا آرخان بھی لکھا گیا ہے۔
ترک انہیں ”اور خان غازی “ کہتے ہیں۔ اور خان کی تاریخ پیدائش کے معاملے میں اختلاف ہے۔ عثمانی مورخین کے مطابق اور خان یکم محرم الحرام 687ھ بمطابق/6 فروری 1288ء کو پیدا ہوئے۔ اور خان کے والد عثمان خان، دولت عثمانیہ کے بانی تھے، اور ان کی والدہ مال خاتون ایک برگزیدہ بزرگ شیخ ادہ بالی کی صاحبزادی تھیں۔ اور خان کی تربیت میں ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا جو ۴۵ برس تک اور خان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔
اور خان کو بچپن ہی سے فنونِ حرب کی تعلیم دی گئی تھی۔ جب وہ ۱۹ برس کے ہوئے تو یار حصار کے حکمران کی بیٹی نیلوفر خاتون سے ان کی شادی کر دی گئی۔ یہ ایک یونانی لڑکی تھی، جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسی خاتون سے اور خان کے دو لڑکے سلیمان پاشا (726 ھ / 1326ء) اور مراد اول (728ھ / 1328ء)میں پیدا ہوئےتھے۔
اور خان اپنے والد محترم عثمان خان کے شانہ بہ شانہ جنگوں میں شریک ہوتے رہتے تھے اور انہوں نے اپنی لیاقت، قائدانہ صلاحیت اور جرات کا لوہا منوا لیا تھا ۔ 717 ھ / 1317ء میں عثمان خان نے شہر برسہ کامحاصرہ کیا۔ یہ بہت اہم شہر تھا۔ اس شہر کی حفاظت کے لیے رومی فوج نے سر توڑ کوشش کی۔ عثمان خان کو بھی اس شہر کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے محاصرہ ختم نہ کیا حتی کہ دس سال بیت گئے۔
اس دوران میں عثمان خان بیمار ہو گئے۔ ان کی عمر تقریباً 70 برس ہو گئی تھی۔ وہ برسہ کا محاصرہ اپنے بیٹے اور خان کے سپرد کر کے خود سوغوت چلے گئے، جو دریائے سقاریہ کی بائیں جانب واقع تھا۔ اور خان کی قیادت میں جاری رہنے والا محاصرہ کامیاب ثابت ہوا اور برسہ کی فوج نے تنگ آکر بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔برسہ پر مسلمانوں کے قبضہ کے کچھ ہی دنوں بعد عثمان خان کا انتقال ہو گیا۔ عثمان خان نے اپنے انتقال سے قبل اپنے بیٹے اور خان کو نصیحت کی : ”ہماری روح تم سے اسی وقت خوش رہ سکتی ہے جب تم خلق خدا کو خوش رکھو گے۔“اور خان نے اپنے باپ کی نصیحت کا پوری طرح احترام کیا۔ ان کا 33 سالہ دور حکومت اس بات پر شاہد ہے کہ انہوں نے خلق خدا کو خوش و خرم رکھا۔
عثمان خان کے دو بیٹے تھے۔ اور خان اور علاؤالدین۔ اور خان کو جنگی فنون میں مہارت حاصل تھی اور علاؤالدین دینی علوم میں دسترس رکھتے تھے۔ تمام حالات اور خان کے حق میں تھے۔ علاؤالدین یوں بھی نرم دل کے انسان تھے۔ اور خان چاہتے تو پوری عثمانی مملکت کے حکمران بننے کا اعلان کر دیتے لیکن انہوں نے ایسا کرنا پسند نہ کیا۔ انہوں نے اپنے بھائی علاؤالدین کو پیشکش کی کہ مملکت کو آدھا آدھا تقسیم کر لیا جائے لیکن علاؤالدین نے اسے منظور نہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو آپ نیلوفرندی (برسہ کے میدان سے گزرتی ہے) کے کنارے گاؤں میں آباد ہو جانے کی اجازت دے دیں۔ اور خان نے اس بات کو مانے سے انکار کر دیا اور اصرار کرتے رہے کہ علاؤالدین مملکت کی وزارت قبول کر لیں حتیٰ کہ علاؤالدین نے ان کی بات مان لی۔
علاؤالدین عثمانی قلمرو کے پہلے وزیر ہیں۔ "پاشا" کا لقب بھی پہلی بار ان ہی کو دیا گیا۔ انہیں فوج کا سپہ سالار بھی بنایا گیا، علاؤالدین کو وزارت سونپنے کا فیصلہ بہت اچھا ثابت ہوا۔ اور خان کی حکومت کو استحکام اور وسعت بخشنے میں علاؤالدین کا کردار بے حد اہم ہے۔ وہ بہت اچھے منتظم تھے۔ انہوں نے عثمانی حکومت کو فوجی، سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے بہت مضبوط بنا دیا۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے والد کی ہدایت کے مطابق برسہ کو دارالحکومت بنایا۔ اپنی حکمرانی کے پہلے ہی سال انہوں نے سال 1326ء میں جزیرہ نما بیتینیا ( بیتھینیہ) پر قبضہ کر لیا۔ یہ جزیرہ نما شمال میں بحیرہ اسود، جنوب میں خلیج نیقومد یہ اورمشرق میں باسفورس سے گھرا ہوا ہے۔
اور خان نے سمندرہ اور ایدوس کے مضبوط قلعوں کو رومیوں سے چھین لیا۔ یہ قلعے نیقومدیہ سے قسطنطنیہ جانے والی سڑک کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تھے۔ سمندرہ اور ایدوس کے مضبوط قلعے تسخیر ہونے کے نتیجے میں خلیج نیقومدیہ کی دونوں جانب ساحلوں پر کئی چھوٹے چھوٹے تصبے فتح ہو گئے تاہم قلعہ ہر کہ والوں نے زیادہ مزاحمت کی۔ اور خان کے ایک سالار قرہ مرسل نے یا لوہ پر قبضہ کیا۔ یہ قصبہ اپنے گندھک کے چشموں کی وجہ سے مشہور تھا۔ قرہ مرسل نے جنوبی ساحلی علاقوں کو بھی فتح کیا۔ انہوں نے ایک چھوٹا بحری بیڑہ بھی بنایا، جس کی وجہ سے قسطنطنیہ والے، نیقومدیہ سے بحری مواصلات کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ قسطنطنیہ پر ان دنوں بازنطینی رومیوں کا قبضہ
تھا۔
اب نیومدیہ پر قبضہ بہت آسان ہو گیا تھا چنانچہ 726 ھ / 1326ء میں نیقومد یہ فتح ہو گیا۔ اس شہر کو نیکو میڈیا بھی لکھا گیا ہے۔ ابتدائی زمانے کے عرب جغرافیہ نویس اسے ”نقمود یہ لکھتے تھے۔ آج کل اسے "از مید" کہا جاتا ہے۔ از مید چھن جانے کے بعد بازنطینی (رومی) سلطنت کے پاس ایشیا میں صرف ایک بڑا شہر "نیقیا" رہ گیا تھا۔ اس شہر کو " نیکیا" بھی لکھا گیا ہے، ترک اسےیز نیق" یا از نیق کہتے ہیں)۔ ابنِ بطوطہ نے لکھا ہے کہ از شیق کا شہر جھیل از نیق کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک اونچی سنگی سڑک تھی جس کی دونوں جانب پانی تھا۔ یہ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ ایک وقت میں اس پر سے ایک ہی سوار گزراس شہر میں بہت سے باغات تھے۔ اس کے گرد چار فصیلیں تھیں اور ہر دو فصیلوں کے درمیان ایک خندق تھی۔ ان خندقوں کو عبور کرنے کے لیے لکڑی کے ایسے پل تعمیر کیے گئے تھے جنہیں حسب ضرورت اٹھا لیا جاتا تھا۔ اور خان نے 730ھ / 1330ء میں اس شہر کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر اور خان نے رواداری اور فراخ دلی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ انہوں نے نیقیا کے باشندوں کو مکمل امان دے کر ان سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنا تمام مال و اسباب لے کر کسی دوسرے شہر میں جا سکتے ہیں۔ اس حسن سلوک کے نتیجے میں یہ ہوا کہ بہت سے غیرمسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔
اس دوران اور خان کو چند چھوٹی ریاستوں کی طرف متوجہ ہونا پڑا جو سلجوقی سلطنت کے اندر قائم ہو چکی تھیں۔ ان میں ایک ریاست کیراسی کی تھی۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں آماسیہ کہلاتا تھا۔ کیراسی میں عجلان بیگ کی حکومت تھی جن کے اور خان سے دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ عجلان بیگ نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے طرسون کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لیے اور خان کے پاس بھیجا تھا۔ عجلان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے تیمور کو حکومت ملی لیکن لوگ ان سے نا خوش تھے۔ طرسون نے اور خان سے مدد چاہی اور بدلے میں برغمہ،بلکسری اور اور مد کے علاقے دینے کا وعدہ کیا۔ اور خان نے کیراسی پر حملہ کر دیا اور راستے میں اولو بار کر ماستی اور دیگر کئی یونانی قلعوں کو بھی فتح کر لیا۔ طرسون اپنے بھائی کے ہاتھوں مارا گیا۔ 737 ھ / 1336ء میں اور خان نے کیراسی پر قبضہ کر لیا۔ اور خان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ساحلی علاقوں میں آباد یونانیوں کی بڑی تعداد مسلمان ہو گئی۔
پھر 738ھ / 1337ء میں اور خان نے چھتیس بحری جہازوں کی مددسے قسطنطنیہ کے قریب اترنے کی کوشش کی۔ ان کا مقصد غالباً - ترا کیا (تھریس) پر قبضہ کرنا تھا، لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور ترک اپنا صرف ایک جہاز بجا کر لا سکے تھے ۔ تھریس میں مقدونیہ کا حصہ تھا جس میں سالونی کا بھی شامل تھا۔ اس دوران قسطنطنیہ کی باز نطینی حکومت بہت کمزور ہو چکی تھی۔
پھر739ھ / 1338ء میں بازنطینی شہنشاہ اینڈرونیکس سوم کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد ان کے نابالغ لڑکے جان (پلیولوگس) کے سر پر تاج رکھ دیا گیا اور کانتا کو زنیوس (کنٹا کو زین) کو نگران مقرر کیا گیا۔ کانتا کو زنیوس نے صرف پانچ سال بعد خود شہنشاہ بننے کا اعلان کر دیا۔ ملکہ کو اعتراض ہوا اور دونوں میں لڑائی چھڑ گئی۔ کانتا کو زنیوس نے اور خان سے چھ ہزار سپاہی مانگے اور اپنی لڑکی تھیوڈورا سے اور خان کی شادی کر دینے کی پیشکش کی۔انہوں نے سپاہی بھیج دیے جنہوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔ ملکہ نے صلح کر لی۔ معاہدہ ہو گیا کہ کانتا کو زنیوس، اس کی بیوی ملکہ اور شہزادہ جان ، چاروں کی مشترکہ حکمرانی ہوگی۔ اور خان کی شادی تھیوڈورا سے کر دی گئی۔ اس کے بعد 6 ہزار عثمانی سپاہی واپس آگئے۔
چند سال بعد یعنی 750ھ / 1349ء میں کینتا کوزین کو پھر مدد کی ضرورت پڑی کیونکہ سروبا کے حکمران اسٹیفن دوشان نے سالونیکا پر حملہ کر دیا تھا۔ اور خان نے کا نیا کو زنیوس کی درخواست پر 20 ہزار سپاہی روانہ کر دیے جنہوں نے اسٹیفن کو سالونیکا میں شکست دی۔ عثمانی سپاہی واپس آگئے۔ 1353ء میں کاستا کو ز نیوس نے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، اس پر بازنطینی مملکت میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ کانتا کو زنیوس نے پھر اور خان سے مدد مانگی اور یورپی ساحل کا ایک قلعہ معاوضہ کے طور پر پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اور خان نے اپنے لائق بیٹے سلیمان پاشا کی سرکردگی میں 20ہزار سپاہی روانہ کر دیے، جن کی مدد سے جان پہولو غوس کو شکست دی گئی اور قسطنطنیہ پر کانتا کو زنیوس کا قبضہ ہو گیا۔ کا نیا کو زنیوس نے وعدہ کے مطابق قلعه نزیمه (زنپ) عثمانیوں کے حوالے کر دیا۔اس کے چند دنوں بعد تھریس میں شدید زلزلہ آیا ۔ کئی شہروں کی فصیلوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ان میں کمالی پولی“ کا شہر بھی تھا۔ اسے اب ” گیلی پولی“ کہا جاتا ہے۔ یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان بہنے والے کم چوڑے سمندر، درہ دانیال کے مغربی ساحل پر تریمیہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع بہت اہم قلعہ تھا۔ قسطنطنیہ سے اس کا فاصلہ 212 کلو میٹر ہے۔ سلیمان نے زلزلہ کو قدرت کا ایک اشارہ قرار دیا اور زبردست حملہ کر کے گیلی پولی پر 759ھ / 1357ء میں قبضہ کر لیا۔ یہاں سے ترکوں کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی۔ سلیمان نے تھریس کے چند دیگر مقامات بھی فتح کر کے ان میں ترک اور عرب باشندوں کو لاکر آباد کر دیا۔
گیلی پولی کی فتح عثمانیوں کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ اس کے صرف دو صدیوں بعد عثمانی سلطنت دیانا کی سرحد تک پھیل چکی تھی۔ بازنطینی حکومت بہت کمزور ہو چکی تھی اور وہ اب دولت عثمانیہ کی باج گزار تھی۔
اور خان کو زمام حکومت سنبھالے ہوئے 32 سال ہو رہے تھے۔ 1326ء میں اور خان کو اپنے والد عثمان خان کے انتقال پر جو مملکت ملی تھی اس کا رقبہ آٹھ ہزار مربع کلو میٹر تھا اور خان کے 32 سال کامیاب حکومت کرنے کے بعد اب عثمانی قلمرو کا رقبہ بڑھ کر ایک لاکھ 2ہزار مربع کلو میٹر ہو چکا تھا۔اور خان اب بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی ساری امیدیں اپنے ہو نہار بیٹے سلیمان سے وابستہ تھیں۔ سلیمان میں ایک اچھے منتظم کی جملہ صفات موجود تھیں اور مختلف مہمات میں انہوں نے بڑی فراست اور جرات کا ثبوت دیا تھا۔ لیکن سلیمان کی زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے۔ 759ھ / 1358ء میں سلیمان گھوڑے کے بدک جانے سے گھوڑے سے گر پڑے اور جاں بحق ہو گئے۔ انہیں ترا کیا (تھریس) میں اس جامع مسجد کے قریب سپرد خاک کیا گیا جو انہوں نے ہی تعمیر کروائی تھی۔ سلیمان کی موت کا اور خان کو شدید صدمہ پہنچا اور اس صدمے کی تاب نہ لاکر 760 ھ / 1359ء میں اور خان کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 78 سال تھی۔ انہیں برسہ میں اپنے والد کی قبر کے قریب دفن کیا گیا۔
اور خان کی حکومت کو سیاسی اور اقتصادی استحکام بخشنے میں اور خان کے بھائی علاؤالدین نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ علاؤالدین کا بڑا کارنامہ عثمانیوں کی فوجی طاقت میں کئی گنا اضافہ کرواتا ہے۔ ان کے پر حکمت فیصلوں کے نتیجے میں عثمانیوں کی جنگی صلاحیت اس قدر بڑھ گئی کہ انہوں نے آئندہ تین سو برس تک فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور خان سے قبل عثمان خان اور ارطغرل کے عہد میں ترک فوج کی کوئی با قاعدہ شکل متعین نہ تھی۔ فوج کی وردی بھی نہ تھی۔ علاؤالدین نے ایک باقاعدہ فوج کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے پیدل سپاہیوں کی ایک فوج تیار کی جس کا نام ” پیادے“ تھا۔ دس، سو اور ہزار کی تعداد میں سپاہیوں پر مشتمل دستے بنائے گئے تھے۔ ان کی باقاعدہ تنخواہیں مقرر تھیں۔ ہر دستے کا نگران مقرر تھا جو اپنے ماتحت پیاروں کو جنگی تربیت دیتا تھا۔
پھر573ھ / 1330ء میں اور خان کو عثمانی خاندان کے ایک فرد قرہ خلیل نے مشورہ دیا کہ جنگوں میں جو عیسائی بچے جنگی قیدی بنائے جاتے ہیں ان میں سے دس بارہ سال کی عمر کے ایسے بچوں کو منتخب کیا جائے جو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند ہوں اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی دی جائے۔ اور خان کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ انہوں نے اپنے بھائی علاؤالدین کو اس نئی فوج کی تربیت و تنظیم کی ذمے داری سونپ دی۔ علاؤالدین نے اس فوج میں عیسائی جنگی قیدیوں، ہتھیار ڈالنے والے یونانیوں اور باہر سے آنے والے تاتاریوں کے نو عمر بچوں کو شامل کرنا شروع کر دیا۔ بعض مسیحی مورخین کے نزدیک عیسائی بچوں پر مشتمل فوج کا قیام زیادتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بچوں کو کسی جبر کے ذریعے فوج میں شامل نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان بچوں کے والدین اور خان اور علا الدین کے شکر گزار اور احسان مند تھے کہ انہوں نے ان بچوں کو باعزت روزگار فراہم کیا اور انہیں عسکری تربیت دلوائی۔ ان میں سے بعض بچے بڑے سپہ سالار ہے۔
اس نئی فوج کا پہلا دستہ مرتب ہوا تو اور خان اس دستے کے نو عمر سپاہیوں کو لے کر اس وقت کے ایک بہت بڑے بزرگ حاجی بکتاش کے پاس لے گئے تاکہ ان سے دعاکر وا سکیں۔حاجی بککاش نے اپنے جبہ کی آستین ان لڑکوں کے قائد کے سر پر رکھ دی اور فرمایا۔ اس دستہ کا نام ” ینی چری“ ہے۔ اللہ اسے سرخ رو کرے، ان کے ہتھیار قوی، ان کی شمشیریں رواں اور ان کے تیر مہلک ہوں اور یہ کامراں ہوں۔ "سفید رو ہونا دراصل ترکی محاورہ ہے جس کے معنی سرخرو ہونے کے ہیں۔
یہیں سے اس فوج کا نام ینی چری یعنی نئی فوج “ رکھ دیا گیا عرب اسے انکشاری “ کہتے ہیں۔ حاجی بکطاش چونکہ اونچی سفید ٹوپی پہنتے تھے جس کی پشت کی جانب کپڑا لٹکا ہوتا تھا اس لیے ینی چری کے فوجی لباس میں بھی اسی قسم کی ٹوپی شامل کی گئی جو اس کی خاص علامت قرار پائی۔ینی چوری میں ہر سال ایک ہزار چھوٹےبچوں کو شام کیا جاتا تھا اس میں بہت سے ایسے بچے تھے جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان بچوں کو ایسے اچھے ماحول میں رکھا جاتا تھا کہ وہ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ تین سو برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد سلطان محمد رابع کے دور میں اس طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی اور 1057 ھ / 1938ء سے خود اسی فوج کے سپاہیوں اور دیگر ترک باشندوں کے لڑکے فوج میں شامل کیے جانے لگے۔ اس طرح یہ فوج بہت وسعت اختیار کر گئی۔ یہ نئی فوج دنیا کی پہلی با قاعدہ فوج کہی جاتی ہے۔ عثمانیوں کی فتوحات میں اس فوج نے اہم کردار ادا کیا۔
اور خان نے ینی چری“ کے سپاہیوں کے لیے نہایت عمدہ فوجی تربیت کا اہتمام کروایا۔ انہیں زمینیں اور دیگر مراعات بھی دی گئیں۔ یہ فوج ” جانثاری فوج بھی کہلاتی تھی۔ ہر ” جاں نثار کو روزانہ ایک اقچہ دیا جاتا تھا۔ یہ اس دور کا سکہ تھا جس میں چھ قیراط چاندی ہوتی تھی۔ اس کا قطر اٹھارہ ملی میٹر تھا۔ علاؤالدین نے پیادوں کی طرح سواروں کی بھی فوج تیار کی۔ ان میں مستقل تنخواہ دار سوار، چار دستوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ یہ فرمانروائے مملکت کے دائیں بائیں چلتے تھے۔ ایک خاص دستہ سپاہی" " کہلاتا تھا۔
اور خان کے عہد میں خبر رسانی کا نظام اتنا اچھا تھا کہ انہیں ہمیشہ پہلے سے معلوم ہو جاتا تھا کہ دشمن کی فوج کب اور کہاں سے آرہی ہے اور کس مقام پر اس سے مقابلہ کرنا مفید ہو گا۔ ایک قدیم سیاح کا کہنا ہے کہ:۔
" عثمانی فوراً روانہ ہو سکتے ہیں اور سو عیسائی فوجی، دس ہزار عثمانی سپاہیوں کے مقابلے میں زیادہ شور کرتے ہیں۔ طبل بجتے ہی عثمانی سپاہی فوراً کوچ کر دیتے ہیں اور جب تک حکم نہ ملے اپنے قدم نہیں روکتے۔ ان کے پاس ہلکا اسلحہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایک رات میں اتنا فاصلہ طے کر لیتے ہیں جتنا فاصلہ عیسائی سپاہی تین دن میں طے کرتے ہیں۔“
اور خان جب بر سر اقتدار آئے تو اس وقت تک ان کی مملکت میں سلجوقی سکے رائج تھے۔ اور خان کے بھائی علاؤالدین نے وزیر بننے کے بعد اور خان کے نام کے نئے سکے ڈھلوائے۔ 728ھ/ 1328ء میں پہلیبار سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے گئے۔ ان سکوں پر قرآنی آیت کندہ کی گئی تھی۔
اور خان نے برسہ کو بے حد ترقی دی۔ 740 ھ / 1340ء میں انہوں نے قلعے کے نیچے میدان میں ایک مسجد ، ایک لنگر خانہ ، ایک حمام اور ایک کارواں سرائے تعمیر کروائی۔ آج بھی یہی علاقہ برسہ کا سب سے بارونق تجارتی مرکز ہے۔ اسی دور میں شہر میں نئے نئے محلے مثلاً علا والدین بیگ، چوہان بیگ، توجه نائب آباد ہوئے۔ 734ھ / 1333ء میں مشہور سیاح ابن بطوطہ نے برسہ کا دورہ کرنے کے بعد لکھا
یہ ایک بڑا اور عظیم الشان شہر ہے جس میں دلکش بازار اور وسیع سڑکیں ہیں۔ یہاں کا سلطان اختیار الدین اور خان ابن السلطان عثمان ہے۔ یہ سلطان ملوک ترکمان میں سب سے بڑا اور مال، شہروں اور لشکر کے اعتبار سے سب سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کے قلعوں کی تعدادتقریباً 100 ہے۔ یہ اکثر اوقات ان کا دورہ کرتا رہتا ہے اور ہر قلعہ میں وہاں کے لشکر کی اصلاح اور حالت کی تحقیق کرتا رہتا ہے۔ وہ کبھی پورا ایک مہینہ کسی شہر میں نہیں ٹھہرا۔ اس نے برسہ کا بارہ سال محاصرہ کر کے اسے فتح کیا۔ میری بھی اس سے ملاقات ہوئی۔"
اور خان اپنی رعایا کے لیے بے حد شفیق تھے۔ ان کی حقیقت ایک مہربان باپ کی سی تھی۔ وہ بہت سادہ مزاج کے مالک تھے، معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کے دور میں محتاج گھر قائم کیے گئے تھے۔ وہ اکثر ان کا دورہ کر لیا کرتے تھے اور وہاں ناداروں اور مستحق افراد میں اشیا کی تقسیم کا معائنہ کرتے تھے۔ اکثر اوقات وہ مساکین اور مستحقین میں روٹی اور سالن اپنے ہاتھ سے تقسیم کیا کرتے تھے۔
تبصرہ کریں