/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سمندری لُٹیرے سے عثمانی امیر البحر تک کا سفر۔

لیسبوس جزیرہ،اور باربروسا برادران کی داستان:۔

لیسبوس کا جزیرہ، جو آج یونان کا حصہ ہے، ماضی میں 1462 سے 1912 تک ترک سلطنت کے زیرِ تسلط رہا۔ 1470 کی دہائی میں یہی جزیرہ ایک ایسے شخص کی جائے پیدائش بنا جسے بعد میں عثمانی سلطنت کا عظیم ہیرو مانا گیا۔ یہ بحیرہ روم کے مشہور قزاق تھے جنہیں دنیا باربروسا (اطالوی زبان میں سرخ داڑھی والا) کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے کیریئر کے دوران انہیں مختلف ناموں سے پکارا گیا، جیسے خضر، حیرالدین پاشا، الجزائر کے قزاق، اور سمندر کا بادشاہ۔ تاہم، باربروسا کا لقب دراصل خضر اور ان کے بھائی عروج (یا اوروج) دونوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، جنہیں تاریخ میں باربروسا برادران کہا جاتا ہے۔

باربروسا برادران کا ابتدائی دور:۔

باربروسا برادران، خاص طور پر عروج اور خضر، بحیرہ روم میں قزاقی میں پہلے ہی ماہر تھے جب 1492 میں اسپین نے غرناطہ پر آخری اسلامی حکومت کو شکست دے کر اندلس سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ شکست کے بعد بہت سے مسلمان شمالی افریقہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔1505ء تک اسپین اور پرتگال نے شمالی افریقہ میں اپنے علاقے بڑھانے کی کوششیں شروع کر دیں اور وہاں کے ساحلی شہروں پر حملے کیے۔ ان حملوں کے جواب میں خضر اور عروج نے عثمانی شہزادے "کورکود" کی مدد سے قزاقی مہمات شروع کیں تاکہ بحیرہ روم کے مغربی حصے میں اسپین اور پرتگال کی بحری طاقت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

عثمانی سلطنت کے اندرونی مسائل اور باربروسا برادران کی ہجرت:۔

1512 میں سلطان بایزید دوم کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں احمد اور سلیم کے درمیان سلطنت کے تخت کے لیے جدوجہد شروع ہوئی۔ سلیم نے احمد کو شکست دی اور ان کے حمایتیوں کا خاتمہ کرنا شروع کر دیا۔ سلیم کو کورکود پر بھی شک تھا، لہٰذا انہوں نے انہیں بھی قتل کر دیا۔ اس صورتِ حال میں باربروسا برادران نے شمالی افریقہ کی جانب ہجرت کر لی تاکہ ایک ایسی حکومت سے دور رہ سکیں جو ان کے لیے خطرناک ہو سکتی تھی۔

شمالی افریقہ میں باربروسا برادران کا عروج:۔

1513 سے 1516 کے دوران باربروسا برادران نے شمالی افریقہ میں آزاد قزاقوں کے طور پر شہرت حاصل کی اور اسپین اور پرتگال کے بحری جہازوں پر حملے کیے۔ 1516 میں انہوں نے الجزائر پر حملہ کیا، اور شہر کو فتح کر کے عروج نے الجزائر کا حکمران بننے کا اعلان کیا۔عثمانی سلطنت نے اس پیش رفت کو شمالی افریقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا موقع سمجھا اور باربروسا برادران کو مالی اور سیاسی مدد فراہم کی۔ انہیں الجزائر کے گورنر اور بحیرہ روم کے مغربی حصے کے بحری کمانڈر کے اعزازی عہدے دیے گئے۔

عروج کی شہادت اور خیرالدین باربروسا کا عروج:۔

1518 میں عروج، اسپین کے ساتھ جنگ کے دوران شہید ہو گئے، اور الجزائر پر دوبارہ اسپین کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد خضر، جنہیں اب حیرالدین کہا جانے لگا، نے باربروسا کا لقب اختیار کیا اور جنگ جاری رکھی۔

حیرالدین باربروسا نے عثمانیوں سے مزید مدد حاصل کی اور اسپین کے خلاف اپنی جنگی مہمات کو جاری رکھا۔ اگرچہ الجزائر پر کئی بار قبضے بدلے، لیکن یہ خطہ ریجنسی آف الجزائر کے نام سے جانا جانے لگا، جو پہلی قزاق ریاست تھی اور عثمانیوں پر زیادہ انحصار کرتی تھی۔

باربروسا اور سلطنتِ عثمانیہ کے تعلقات:۔

سلطان سلیمانِ عظیم نے 1522 میں جزیرہ رودس پر قبضہ کیا اور حیرالدین باربروسا کو وہاں کا بیلربی (گورنر) مقرر کیا۔ 1531 میں تیونس کی فتح کے بعد سلطان سلیمان نے باربروسا کو بحریہ عثمانیہ کا گرینڈ ایڈمرل (کپودان پاشا) بنا دیا، اور وہ بحریہ کے چیف کمانڈر بن گئے۔

جنگِ معرکہ پریویزا(1538):۔

1538 میں باربروسا نے یونان کے پریویزا کے مقام پر ایک عظیم جنگ میں ویٹیکن، وینس، جینوا، اسپین، پرتگال، مالٹا اور دیگر ریاستوں کے مشترکہ بحری بیڑے کو شکست دی۔
یہ فتح عثمانی بحریہ کی بڑی کامیابی تھی۔معرکہ پریویزا سلطنت عثمانیہ اور یورپی ممالک کے "مقدس اتحاد" (Holy League) کے درمیان ہوا۔ یہ لڑائی سلطنت عثمانیہ کے بحری کمانڈر خیرالدین باربروسا کی قیادت میں ہوئی، جبکہ یورپی افواج کی قیادت پوپ پال III کے مقرر کردہ کمانڈر ایندریا ڈوریا کر رہے تھے۔ مقدس اتحاد میں وینس، اسپین، جینوا، اور دیگر یورپی ریاستیں شامل تھیں، جو بحیرہ روم میں عثمانی بالادستی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

عثمانی بحریہ کی تیاری:۔

خیرالدین باربروسا، ایک ماہر بحری کمانڈر، عثمانی بحریہ کو بہترین جنگی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں لائے۔ ان کے پاس تقریباً 122 جنگی جہاز تھے اور تجربہ کار بحری عملہ تھا، جو بحری لڑائی میں ماہر تھے۔

مقدس اتحاد کے پاس 300 سے زیادہ جہاز اور بڑی تعداد میں توپخانے اور جنگجو تھے۔ یہ تعداد عثمانی بحریہ سے زیادہ تھی، لیکن قیادت اور حکمت عملی میں کمزور تھے۔جنگ کا آغاز 28 ستمبر 1538 کو ہوا۔خیرالدین باربروسا نے اپنی بحریہ کو ساحل کے قریب پوزیشن دی، تاکہ بڑی یورپی بحریہ کو گہرے پانی میں لڑنے پر مجبور کیا جائے۔عثمانی جہاز چھوٹے، تیز رفتار اور زیادہ قابلِ حرکت تھے، جس کی وجہ سے وہ بڑی یورپی بحریہ کو چکمہ دینے اور ان پر حملے کرنے میں کامیاب ہوئے۔عثمانی توپخانے کی مہارت اور بحری جہازوں کی منظم صف بندی نے دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔ایندریا ڈوریا، جو یورپی بحریہ کے کمانڈر تھے، آخرکار شکست کھا کر پسپا ہوگئے۔

نتائج:۔

عثمانی بحریہ کی شاندار فتح نے بحیرہ روم میں عثمانی بالادستی کو مزید مضبوط کر دیا۔مقدس اتحاد کی بحریہ کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا، اور وہ اپنی بڑی تعداد کے باوجود شکست کھا گئے۔یہ معرکہ عثمانی بحریہ کے سنہری دور کی علامت بن گیا اور بحیرہ روم کے مغربی حصے میں بھی عثمانی اثر و رسوخ بڑھا۔خیرالدین باربروسا کی جنگی حکمت عملی کو بحری جنگوں میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

فرانس کے لیے مہم (1543-1544):۔
خیرالدین باربروسا نے 1543 اور 1544 میں فرانس کی مدد کے لیے ایک بڑی مہم کی قیادت کی، جس کا مقصد ہیبسبرگ سلطنت کے خلاف فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کو تعاون فراہم کرنا تھا۔ یہ اتحاد سلطنت عثمانیہ اور فرانس کے درمیان اس وقت کی غیر معمولی سفارتی شراکت داری کا حصہ تھا۔فرانس کے بادشاہ فرانسس اول نے سلطنت عثمانیہ سے مدد طلب کی تاکہ وہ ہولی رومن ایمپائر کے حکمران چارلس پنجم کے خلاف اپنی جنگی پوزیشن مضبوط کر سکے۔

سلطان سلیمان اعظم نے باربروسا کو حکم دیا کہ وہ فرانس کی حمایت میں بحری مہم شروع کریں۔

  1. باربروسا کی روانگی:
    باربروسا نے ایک طاقتور عثمانی بحری بیڑے کے ساتھ بحیرہ روم کا سفر کیا، جس میں 100 سے زائد جنگی جہاز شامل تھے۔

  2. فرانسیسی بندرگاہوں میں داخلہ:
    عثمانی بحریہ نے فرانس کے ساحلی شہر ٹولون کو اپنا اڈہ بنایا۔ فرانسیسی حکومت نے عثمانی فوج کو شہر استعمال کرنے کی مکمل اجازت دی، اور وہاں کے رہائشیوں کو عارضی طور پر شہر سے نکال دیا گیا۔

  3. ہیبسبرگ سلطنت کے خلاف حملے:
    باربروسا کی فوج نے اٹلی کے کئی ساحلی شہروں پر حملے کیے، جن میں نیس (Nice) بھی شامل تھا، جو اس وقت ہولی رومن ایمپائر کے زیر تسلط تھا۔نیس پر حملے کے دوران عثمانی بحریہ نے شہر کو شدید نقصان پہنچایا اور اسے جزوی طور پر فتح کیا۔

    یہ کارروائی فرانس کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی، کیونکہ اس نے چارلس پنجم کے خلاف اہم دفاعی برتری فراہم کی۔

  4. ٹولون میں قیام:
    باربروسا نے ٹولون میں موسم سرما گزارا اور وہاں عثمانی ثقافت اور معاشرت کی جھلک بھی دکھائی دی۔ عثمانی فوج کی موجودگی نے فرانسیسی عوام کو ایک نئی طاقت کا اندازہ دیا۔

باربروسا کی واپسی اور وفات:۔

یہ مہم باربروسا کی آخری بڑی فوجی کارروائیوں میں سے ایک تھی۔ 1546 میں ان کی وفات کے بعد، سلطنت عثمانیہ کی بحری قوت کا ایک اہم باب ختم ہوا، لیکن ان کی فتوحات اور جنگی حکمت عملی ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں۔1546 میں استنبول میں باربروسا کی وفات ہوئی۔ وہ عثمانی بحریہ کے عظیم ترین ایڈمرلز میں سے ایک تھے اور بحیرہ روم میں عثمانی حکمرانی کے قیام میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں